اس ملک میں خواتین اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نہ آئیں تو کیا کریں؟

بابر علی پلی

یہ جنرل ضیاء الحق کے اسلامی دور کی بات ہے، سن 1982ء میں پنجاب کے شہر ساہیوال میں ایک گھریلو ملازمہ صفیہ بی بی کو گھر کے مالک اور بیٹے نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں سفیہ نے ایک بچے کو جنم دیا جو کہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکا۔ جس کے بعد صفیہ بی بی کے والد نے گھر کے مالک محمد علی اور اس کے بیٹے مقصود احمد کے خلاف پولیس میں رپورٹ جمع کرائی۔ پولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کیا اور ساہیوال کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں پیش کیا۔ حدود آرڈیننس کے تحت صفیہ بی بی ایسے چار مرد گواہ عدالت میں پیش نہیں کر سکی جنہوں نے یہ زیادتی ہوتے ہوئے آنکھوں سے دیکھی ہو، اس لئے ان دونوں ملزمان کو باعزت بری کر دیا گیا۔ چونکہ صفیہ بی بی طے کردہ معیار کے تحت خود سے ہوئی زیادتی ثابت نہیں کر سکی۔ اس لئے ان پر غیر ازدواجی تعلقات رکھنے کی پاداش میں پندرہ کوڑوں، تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ سنائی گئی سزا کے تحت صفیہ بی بی کو پندرہ کوڑے رسید کئے گئے۔ ساہیوال ڈسٹرکٹ کورٹ کو حدود آرڈیننس کے تحت سنائے گئے اس فیصلہ پر بین الااقوامی میڈیا میں شدید تنقید کی گئی، جس کے بعد مجبوراً شرعی عدالت کی جانب سے صفیہ بی بی کو رہا کیا گیا۔ لیکن جب تک سزا منسوخ کی گئی تب تک صفیہ بی بی کو پندرہ کوڑے لگ چکے تھے اور وہ چھ ماہ کی قید کاٹ چکی تھی۔
صفیہ بی بی کو یہ سزا حدود آرڈیننس کے تحت سنائی گئی تھی۔ حدود آرڈیننس جنرل ضیاء الحق کے اسلامی نظام کا پہلا قدم تھا۔ 1979ء میں مفتی تقی عثمانی کی جانب سے لکھے گئے حدود آرڈیننس کے تحت اگر کسی عورت سے زیادتی ہوتی ہے تو یہ زیادتی ثابت کرنے کے لئے اس پر لازم تھا کہ وہ ایسے “چار مرد گواہ” پیش کرے جنہوں نے زیادتی ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہو۔ اگر اس معیار کے تحت عورت خود سے ہوئی زیادتی ثابت نہیں کر سکتی تو اسے غیر ازدواجی تعلقات کی پاداش میں سزا سنائی جاتی۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1979ء سے 2006ء کے درمیان تقریباً ساڑھے سات ہزار خواتین زیادتی کی شکایت لے کر کورٹ پہنچیں، لیکن چونکہ وہ حدود آرڈیننس کی معیار کی تحت زیادتی ثابت نہیں کر سکیں، اسی بِنا پہ انہیں خود کو ہی جیل کی سزا بھگتنی پڑیں۔ پاکستان میں اس عرصے میں جیلوں میں قید اکثر خواتین زیادتی کی شکار تھیں۔

صفیہ بی بی کیس کے بعد کچھ سرگرم خواتین “وومین ایکشن فارم” کے تحت پاکستانی خواتین کے ساتھ ہوتی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے نکلیں۔ 12 فروری 1983ء پر لاہور میں خواتین کی طرف سے مارچ کیا گیا، اس مارچ پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور کئی خواتین گرفتار ہوئیں۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے ہی خواتین کو ساڑھی پہننے پر پابندی عائد کر دی جس کے بعد 1985ء میں لاہور کے ایک گراؤنڈ میں گلوکارہ اقبال بانو نے احتجاج درج کراتے ہوئے فیض احمد فیض کی نظم “ہم دیکھیں گے” گائی اور پورا گراؤنڈ انقلاب زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔

دنیا کی تاریخ دیکھی جائے تو عورت جدوجہد سے بھری ہوئی ہے۔ تعلیم کے حق سے لے کر ووٹ کا حق لینے تک، عورت کو ہمیشہ جدوجہد کرنی پڑی ہے۔ ہر مظلوم و محکوم کے لئے آواز اٹھانا دراصل طبقاتی جدوجہد کا حصہ ہے۔ عورت ہمیشہ سے مظلوم رہی ہے۔ 1979ء کی ڈنمارک کی فیمنسٹ موومنٹ کا نعرہ ہی یہی تھا کہ “طبقاتی جدوجہد خواتین کی جدوجہد ہے! خواتین کی جدوجہد طبقاتی جدوجہد ہے”۔ چونکہ سرمایہ دار کو ہر حالت میں اپنا سرمایہ عزیز ہوتا ہے، عورت کی خودمختاری کے نام پر سرمایہ دار نے اسے بھی کوموڈٹی کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن، اس کے باوجود مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان میں بلا طبقاتی تفریق عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی رہی ہے۔ اس کی مثال 2021ء میں اسلام آباد کے ایک پوش علاقے ایف سیون میں سابق سفیر شوکت مقدم کی ستائیس سالہ بیٹی نور مقدم کا قتل ہے۔ ظاہر جعفر نے نور مقدم کا انتہائی سفاکی اور بے رحمی سے قتل صرف اس لئے کیا کیونکہ نور مقدم نے اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ملک میں اگر کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہو جاتی ہے تو اس میں بھی قصوروار اسی عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ 2020ء میں جب پنجاب میں رات کے وقت ایک عورت کے ساتھ موٹروے پر زیادتی ہوئی تب ایک تبصرہ زبان زد عام یہ تھا کہ عورت رات کو اتنی دیر سے گھر سے باہر نکلی کیوں! حال ہی میں لاہور میں عورت کے کپڑوں پر ہجوم آپے سے باہر ہو گیا، اس پر بھی اکثریتی تبصرہ یہ سننے کو ملا کہ ایسے کپڑے پہننے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ایسے واقعات عورت کی مظلومیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہم جو عورت کی عزت کے دعوے دار ہیں، وہاں ہر گالی عورت کے ساتھ منسوب ہے اور ہر جگت و طنز عورت کو نشانہ بنائے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔ عورت کی عزت اگر کرنی ہے تو وہ بھی محض اس کے رشتے کے بنیاد پر، نہ کہ انسان ہونے کے بنیاد پر۔ ہم عورت کو ماں، بہن، بیٹی یا بیوی سے بالاتر ہو کر ایک انسان کی طور پر کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ آج بھی دفتروں اور دیگر کام کی جگہوں پر عورت محفوظ نہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک سو خواتین ایسڈ اٹیک کا شکار بنتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹوں میں ایک عورت جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2022ء میں غیرت کے نام پر کل 520 قتل ہوئے جس میں 323 خواتین شامل ہیں۔ 2021ء میں ایسے 592 قتل ہوئے جس میں 382 خواتین کا قتل کیا گیا۔

وہ ملک جو صنفی مساوات کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بدترین ملک ہو اور خواتین کے لئے دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہو۔ اس ملک میں جہاں خواتین کے ساتھ زیادتی ہونے پر خود کو ہی کوڑے لگنے جیسی روایات ہوں۔ وہاں خواتین اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نہ آئیں تو کیا کریں؟

Spread the love

Leave a Reply