ناول” ماں”

ایک ماں کے دل کی آواز

فیروز گل سولنگی

گزشتہ گرما کی چھٹیاں ایک کتب خانہ میں کتب گردانی کرتے گزریں۔ جو میرے شہر کنڈیارو میں واقعہ تھی، جس کو کسی انسان دوست نے اپنی ذاتی پانچ سو کتب سے سجایا ہوا تھا۔ وہاں مختلف کتب اور جریدے پڑھنے کو ملے اور شام کو دوستوں کے ساتھ ان پر تبصرہ کرنے کو ملتا رہا۔وہاں جا کے کئی مضامین کی کتب کا مطالعہ کرتا تھا۔ ایک دن ایک کامریڈ دوست نے “ماں” ناول کے بارے بتایا، اگلے دن تھوڑی سی جانچ کے بعد یہ کتاب ہاتھ لگی۔ جو ان پانچ سو کتب میں موجود تھی۔ اس کتاب کو روسی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ ناول نے اپنی گرفت میں لے لیا اور کچھ ہی دن میں اس کو پڑھ ڈالا۔ سوچا آپ ساتھیوں سے اس ناول کے بارے میں کچھ تذکرہ کروں۔ ناول بہت ہی عمدہ  تھا۔ آپ سے التماس ہے کہ آپ بھی اپنی زندگی میں ایک بار اس ناول کا مطالعہ کریں۔ ناول “ماں” 1902ء میں پہلی بار شائع ہوا جو کہ روسی ادب سے تعلق رکھنے والے ادیب میکسم گورکی نے لکھا تھا۔ ترجمہ کے بعد سے ناول نے عالمی ادب میں شہرت پائی اور اس ناول نے روسی نوجوانوں کا جذبہء انقلاب کی طرف بلند کیا۔ اسی ناول کی تعریف ولادیمیر لینن نے بھی کی کچھ اس طرح کی کہ اس کی بدولت عالم انسانیت کا پرچم اکتوبر انقلاب کی صورت میں لہرایا گیا۔ یہ ناول ایک مزدور بیٹے اور ان کی ماں کی کہانی پر مبنی ہے۔ بیٹا سوشلسٹ نظریے کا قائل تھا اور انقلابی کارکنوں میں سے ایک سرگرم کارکن تھا۔ بیٹے کی قید کے بعد اس کی ان پڑھ ماں نے اپنے بیٹے کے مشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور بڑی مشقت برداشت کرنے کے باوجود بھی بیٹے کا مشن جاری رکھا۔ اور ماں نے دل و جان سے مشن کو بڑے شاطر طریقے سے مکمل کیا۔

دوستو، جب میں نے ناول کو پڑھ کر مکمل کیا، تو مجھے ایسا لگا کہ ناول نے میرے خیالات، میرے ذہن، میرے دل کو عالم انسانیت کی محبت سے پُرنور کر دیا ہے۔ میری زندگی کا یہ ایسا واحد ناول تھا جس نے مجھے اپنے عظیم نظریے کے ساتھ صادق رہنا سکھایا۔ کسی نے سچ ہی کہا کہ زندگی میں ایک کتاب ایسی بھی ہوتی ہے جو آپ کی زندگی آپ کے خیالات کو بدل لیتی ہے۔ کامریڈز، اس ناول میں انسانیت کا درد، غریب طبقے سے محبت، اپنے نظریے کے پکے، صداقت کے راستے پر مشکلات سے لڑنے کا بلند جذبہ، راستے میں حائل مشکلات کو ٹھوکر سے اڑا دینا اور ایک دوسرے سے محبت اور اپنے نظریے کو لوگوں تک پہنچانے کا سبق سیکھنے کو ملا۔

ساتھیو، یہ ناول انقلابی جدوجہد کے بارے میں بتاتا ہے۔

انقلابی جدوجہد میں قدم رکھ کر “ماں ” نے  نعرہ لگانے کا حق حاصل کر کے بلند نعرہ لگایا کہ

“میری روح کو قتل نہیں کر سکتے، خون کا ساگر بھی صداقت کو نہیں ڈبو سکتا۔”

 ناول کے کچھ  فقرے بہت پسند آئے۔ جن کو میں نے بار بار پڑھا۔ وہ فقرے میں آپ کامریڈز کے خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

“امير کے لئے تو جنت بھی نا کافی ہے۔ اس لئے ہم غریبوں کا خون چوسنا شروع کیا۔ حکام تو ان کے دوست ہی ٹھہرے۔”

“ذرا سوچو۔ لوگوں کو قتل کرنے اور ان کی روحوں کو مسخ کرنے کا مقصد اپنی جانوں کی حفاظت نہیں ہوتا۔ اپنی خاطر یہ سب کچھ نہیں کرتے بلکہ اپنی ملکیت کی خاطر کرتے ہیں! وہ لوگ اس کا تحفظ نہیں کرتے جو ان کے اندر ہے بلکہ اس کا کرتے ہیں جو باہر ہے۔”

“پرانی دنیا کو ہمیشہ کے لئے ٹھکراتے ہوئے۔

ہم اپنے پیروں سے اس کی خاک کو جھاڑ دیتے ہیں!

اٹھو مزدورو، جہد کے لئے اٹھو!

اٹھو تم، جو محنت کرتے اور فاقے کرتے ہو!”

“یہ کون سی بڑی بات ہے کہ آج انسان نے اپنا کام کیا اور کھانا کھایا، اور کل کام کیا اور کھانا کھا لیا۔ اور ساری زندگی یہی کرتا رہا، کام کرنا اور کھانا۔ انسان کہلانے کے قابل تو صرف وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی انسانی ذہن کو زنجیروں سے آزاد کرانے کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔”

“تم کیا کرنا چاہتے ہو۔۔۔؟

پاویل کی ماں نے جب اپنے بیٹے سے پوچھا

کہنے لگا: پہلے پڑھنا چاہتا ہوں اور پھر دوسروں کو پڑھانا چاہتا ہوں۔

ہم مزدوروں کو پڑھنا چاہیئے، ہمیں یہ معلوم کرنا اور سمجھنا چاہیئے کہ ہماری ‘زندگی’ اتنی کٹھن کیوں ہے۔”

“نوجوان دل ہمیشہ سچائی کو پکڑنے میں زیادہ تیز ہوتا ہے۔”

دوستو تحریر میں اگر کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہے تو اس کے لئے معذرت کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میں کوئی ادیب نہیں، ابھی طالب علم ہوں جو اپنے جذبات کو آپ تک پہنچانا چاہتا ہے۔

Spread the love

Leave a Reply